Unique Gangster–224– انوکھا گینگسٹر قسط نمبر

انوکھا گینگسٹر

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ بلکل فری ہے اس  پر موجود ایڈز کو ڈسپلے کرکے ہمارا ساتھ دیں تاکہ آپ کی انٹرٹینمنٹ جاری رہے 

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ  کی طرف سے پڑھنے  کیلئے آپ لوگوں کی خدمت میں پیش خدمت ہے۔ ایکشن ، رومانس اورسسپنس سے بھرپور ناول  انوکھا گینگسٹر ۔

انوکھا گینگسٹر — ایک ایسے نوجوان کی داستان جس کے ساتھ ناانصافی اور ظلم کا بازار گرم کیا جاتا  ہے۔ معاشرے  میں  کوئی  بھی اُس کی مدد کرنے کی کوشش ہی نہیں کرتا۔ زمین کے ایک ٹکڑے کے لیے اس کے پورے خاندان کو ختم کر دیا جاتا ہے۔۔۔اس کو صرف اس لیے  چھوڑ دیا جاتا ہے کہ وہ انتہائی کمزور اور بے بس  ہوتا۔

لیکن وہ اپنے دل میں ٹھان لیتاہے کہ اُس نے اپنے خاندان کا بدلہ لینا ہے ۔تو کیا وہ اپنے خاندان کا بدلہ لے پائے گا ۔۔کیا اپنے خاندان کا بدلہ لینے کے لیئے اُس نے  غلط راستوں کا انتخاب کیا۔۔۔۔یہ سب جاننے  کے لیے انوکھا گینگسٹر  ناول کو پڑھتے ہیں

نوٹ : ـــــــــ  اس طرح کی کہانیاں  آپ بیتیاں  اور  داستانین  صرف تفریح کیلئے ہی رائیٹر لکھتے ہیں۔۔۔ اور آپ کو تھوڑا بہت انٹرٹینمنٹ مہیا کرتے ہیں۔۔۔ یہ  ساری  رومانوی سکسی داستانیں ہندو لکھاریوں کی   ہیں۔۔۔ تو کہانی کو کہانی تک ہی رکھو۔ حقیقت نہ سمجھو۔ اس داستان میں بھی لکھاری نے فرضی نام، سین، جگہ وغیرہ کو قلم کی مدد سےحقیقت کے قریب تر لکھنے کی کوشش کی ہیں۔ اور کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ آپ  کو ایکشن ، سسپنس اور رومانس  کی کہانیاں مہیا کر کے کچھ وقت کی   تفریح  فراہم کر رہی ہے جس سے آپ اپنے دیگر کاموں  کی ٹینشن سے کچھ دیر کے لیئے ریلیز ہوجائیں اور زندگی کو انجوائے کرے۔تو ایک بار پھر سے  دھرایا جارہا ہے کہ  یہ  کہانی بھی  صرف کہانی سمجھ کر پڑھیں تفریح کے لیئے حقیقت سے اس کا کوئی تعلق نہیں ۔ شکریہ دوستوں اور اپنی رائے کا کمنٹس میں اظہار کر کے اپنی پسند اور تجاویز سے آگاہ کریں ۔

تو چلو آگے بڑھتے ہیں کہانی کی طرف

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

انوکھا گینگسٹر قسط نمبر -224

جہاں تمام تر سہولیات موجود تھے اور ایک ایسا روم تھا جس کے بارے میں کوئی سٹاف پوچھ بھی نہیں سکتا تھا جہاں ایک ڈاکٹر کی ڈیوٹی پرماننٹ ہی ہوتی تھی۔۔

شیرا سے بات کرنے کے بعد پتہ چلا کہ ڈاکٹر نے ہی اسے یہاں شفٹ کیا ہے کہ وہاں خطرہ ہو سکتا ہے ۔۔کیونکہ اس ہسپتال میں کافی ایسے مریض اتے ہیں جو ایمرجنسی کی صورت میں ہوتے ہیں اور پھر پولیس کو بھی انا پڑتا ہے۔

میں اپنے بیگ میں کچھ پیسے لایا تھا وہ میں نے شیرا کو پکڑاے اور اسے کہا کہ کسی چیز کی بھی کمی نہیں ہونی چاہیے ڈاکٹر جتنا بل بنائے گا اس کا تین گنا ادا کرنا تاکہ ڈاکٹر اپنا منہ کبھی بھی نہ کھولے۔۔

شیرا بولا: ۔ ٹھیک ہے میں سب سمبھال لوں گا۔

میں بولا۔:میں واپسی پر پھر چکر لگاتا ہوں۔

اتنا کہنے کے بعد میں وہاں سے نکلا اور سونیا کے فارم ہاؤس پر آ گیا۔۔

کل کی نسبت اج میں تھوڑا لیٹ ایا تھا تو اس لیے چاروں وہاں بیٹھ کر پڑھائی کر رہی تھی جیسے ہی وہاں داخل ہوا تو سحرش بولی۔۔۔ لو تو مسٹر اگئے ہیں میں نے تو سوچا تھا کہ اج نہیں ائیں گے۔

میں بولا۔:۔ اپ کے ساتھ کمٹمنٹ تھی اس لیے اگیا ہوں ورنہ میں اج بہت زیادہ بزی تھا انے کی ہمت بھی نہیں تھی۔

اس کے بعد میں نے بیگ کھولا اور وہاں پڑھنے کے لیے بیٹھ گیا۔۔۔

ابھی مجھے تھوڑی دیر ہی گزری تھی کہ مجھے ایک ہاتھ اپنے لن پر محسوس ہوا ۔۔میں نے ایک طرف دیکھا تو اجالا بیٹھی تھی لیکن اسکے دونوں ہاتھ اوپر تھے دوسری طرف دیکھا تو سحرش تھی اور اسی کا ہاتھ ہی میرے لن پر موجود تھا۔

میں نے اپنے ہونٹ اس کے کانوں کے قریب کیے اور اسے کہا کہ اج نہیں اج میرا بالکل بھی موڈ نہیں ہے میرا دماغ پہلے ہی الجھا ہوا ہے۔۔

سحرش نے بھی میری بات کو سمجھ لیا تھا اور  اپنا ہاتھ ایک طرف کرتے ہوئے بولی۔۔۔ سوری

میں سمجھا کہ شائد  یہ مجھ سے ناراض ہو گئی ہے پر  ایسا بالکل بھی نہیں تھا کیونکہ اس کے چہرے پر ایسے کوئی بھی بھاؤ نہیں تھے۔۔ جن سے یہ پتہ چل سکے کہ یہ ناراض ہو گئی ہے۔

تقریبا چار بجے تک ہم لوگ وہاں بیٹھ کر پڑھتے رہے ۔۔اسی بیچ ہی ہم نے وہاں پر  کھانا کھایا اور پڑھائی سے فارغ ہونے کے بعد میں وہاں سے نکلا اور ایک دفعہ پھر ہاسپٹل پہنچ گیا۔۔

نوید  کو ہوش آ چکا تھا شیرا اس کے پاس بیٹھا تھا۔ میں جب کمرے میں گھسا تو نوید  مجھے دیکھ کر کھڑا ہونے لگا تو میں نے ہاتھ کے اشارے اسے لیٹے رہنے کو ہی کہا۔۔

میں شیرے کو مخاطب کرتے ہوے بولا۔:اسے کب ہوش آیا۔ اور اب اسکی طبیعت کیسی ہے؟

میری بات سن کر شیرا جواب دیتے ہوۓ بولا : اسے  گھنٹہ پہلے ہی  ہوش آیا ہے اور کہ رہا ہے میں بہتر ہوں ۔۔

میں بولا۔: پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے تمہارا اچھے سے اچھا  علاج ہو گا اور جس نے بھی تمہاری یہ حالت کی ہے وہ بہت جلد اس دنیا سے کوچ کرے گا ۔۔

میری بات سن کر نوید کی آنکھوں میں چمک آگئی تھی جیسے اسے میرے منہ سے یہی سننا تھا کے اس کے اوپر ہونے والے حملے کو میں نے سنجیدہ لیا ہے

وہ بولا : وہ میرے پیچھے نہیں اپ کے پیچھے ایا تھا۔۔ میں نے اسے روکنے کی کوشش کی تو اس نے گولیاں چلا کر  میری یہ حالت کر دی

میں بولا۔:اس وقت یہ سوال کرنا ٹھیک تو نہیں لیکن کیا تم مجھے بتا سکتے ہو کہ وہ کون تھا۔۔

نوید  بولا۔:اس کا نام بکران تھا اور اج سے پہلے میں نے اس کو اس علاقے میں کبھی بھی نہیں دیکھا تھا۔

میں بولا:۔ تم اب ارام کرو باقی کی ساری ذمہ داری میری ہے تمہیں زیادہ پریشان ہونے کی ضرورت نہیں بہت جلد میں اس تک پہنچ جاؤں گا۔۔

اس کے ساتھ ہی میں شیرا سے بولا۔: یہ ذمہ داری میں تمہیں سونپتا ہوں اس کا جلد سے جلد پتہ لگا کر مجھے بتاؤ۔۔

شیرا بولا۔: میں پہلے ہی اس کام میں لگا ہوا ہوں بہت جلد اس کا پتہ چل جائے گا کہ وہ کون ہے اور کس کے لیے کام کرتا ہے۔۔اسی سسلے میں میں جیدے کو بھیج چکا ہوں ۔۔

شیرا لوگوں سے بات کرنے کے بعد  میں وہاں سے باہر نکلا اور پارکنگ میں  اپنی گاڑی میں بیٹھ  کر ہسپتال سے  باہر نکل آیا ۔۔ابھی میں نے تھوڑا ہی فاصلہ طے کیا تھا کے اتنے میں تین گاڑیاں میرے قریب سے کافی سپیڈ میں آگے نکلی ۔۔ان کی رفتار دیکھ کر مجھے دال میں کچھ کالا لگا ۔۔ مجھے یہ شک لاحق ہوا کہ کہیں یہ میرے پیچھے نہ ہوں پر وہ میرے قریب  رکنے کی بجائے آگے کی طرف ہی بڑھ گئے ۔۔

مجھے تو شہر سے باہر کی طرف جانا تھا جبکہ یہ گاڑیاں اندرون شہر کی طرف جا رہی تھیں۔ ایک بار تو میں نے سوچا کہ مجھے ان کے پیچھے جانے کی ضرورت نہیں ہے پر میری چھٹی حس مجھے بار بار خبردار کر رہی تھی کے مجھے  ان کے پیچھے جانا چاہیے۔ ہو سکتا ہے جس کو میں ڈھونڈ رہا ہوں وہ مجھے یہیں  مل جائے۔

میرے پاس زیادہ سوچنے کے لیے موقع نہیں تھا مجھے جو کچھ بھی کرنا تھا وہ جلد سے جلد کرنا تھا۔۔ اس لیے ٹائم ضائع کرنے کی بجائے میں نے گاڑی ان کے پیچھے ہی لگا دی۔

گاڑیاں تھوڑی دیر آگے جانے کے بعد  ایک چوک سے انہوں نے ٹرن لیا اور رائےوانڈ کی طرف جانے لگی۔۔ میں  بھی کچھ فاصلہ رکھ کر ان کے پیچھے ہی جا رہا تھا۔۔

جس طرح وہ گاڑیاں سپیڈ سے جا رہی تھی اور تینوں ابھی بھی ایک ساتھ ہی تھی اس سے میرے لئے خطرہ تو بہت تھا پر فی الحال میرے پاس اور کوئی حل  بھی نہیں تھا ۔۔ان کا پیچھا کرنا اب میرے لئے ضروری تھا۔۔ ہو سکتا ہے کہ یہی بکران ہو۔

جیسے ہی گاڑیاں رائے وانڈ روڈ پر پہنچی تو پھر تھوڑا آگے جانے کے بعد انہوں نے ایک طرف ٹرن لے لیا۔۔ اور بغیر تاخیر لے گاڑیوں کو ایک طرف بھگانا شروع کر دیا۔ لگ بھگ 25 سے 30 کلومیٹر کا فاصلہ طے کرنے کے بعد گاڑیاں کی سمت ایک  زیر تعمیر سوسائٹی کی طرف تھی۔۔

یہ شہر سے باہر بن رہی ایک نئی سوسائٹی تھی جسکی پورے شہر میں بہت دھوم تھی۔

ابھی تک اس سوسائٹی میں اتنے زیادہ گھر آباد نہیں ہوۓ  تھے۔ پر  جتنے بھی گھر آباد تھے وہ اچھے اور ہائی کوالٹی کے بنے ہوئے تھے۔۔۔

یہ گاڑیاں ان گھروں میں سے کسی کے بھی سامنے رکنے کی بجائے  ان گھروں کو چیرتی ہوئی آگے کی طرف نکلی جہاں ایک بڑا سا حویلی کی طرز پر بنا ہوا گھر تھا۔۔ یکے بعد دیگرے تینوں گاڑیاں اس حویلی کے گیٹ کے اندر داخل ہو گئی تھیں۔ ۔۔

 میں نے گاڑی اس سوسائٹی کے پارک میں پارکنگ کی اور پھر وہاں سے نکل کر پیدل ہی آگے کی طرف بڑھنے لگا کیونکہ گاڑی کو آگے حویلی کی طرف لے کر جانا خطرے سے خالی نہیں تھا۔۔

میں نے اپنا پسٹل اٹھا کر اپنے پاس رکھ لیا تھا۔ سوسائٹی سے نکل کر جو سڑک اس حویلی کی طرف جا رہی تھی اس کے دونوں اطراف پر خوبصورتی کےلیے درخت لگے ہوئے تھے ۔۔ میں ایک طرف سے ہو کر ان درختوں کے پیچھے چھپتے چھپاتے اس حویلی کی طرف بڑھ رہا تھا۔۔

اگلی قسط بہت جلد 

مزید اقساط  کے لیئے نیچے لینک پر کلک کریں

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ بلکل فری ہے اس  پر موجود ایڈز کو ڈسپلے کرکے ہمارا ساتھ دیں تاکہ آپ کی انٹرٹینمنٹ جاری رہے 

Leave a Reply

You cannot copy content of this page